تجزیہ ثاقب ملک : کیا فلیسطین کے گرینڈ مفتی نے ہٹلر کو ہولوکاسٹ پر آمادہ کیا ؟ واشنگٹن پوسٹ آرٹیکل

پس منظر
یہ آرٹیکل جو واشنگٹن پوسٹ میں جسٹن مویئر نے لکھا ہے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے “ورلڈ زایونسٹ کانگریس ” میں دئے گئے اس بیان پر ہے جس میں انہوں نے ،یروشلم ،فلسطین کے اس وقت کے گرینڈ مفتی امین الحسینی پر الزام لگایا کہ انہوں نے ہٹلر سے ملاقات میں انہیں یہودیوں کے تلف کرنے پر آمادہ کیا .
خلاصہ
جسٹن مویئر لکھتے ہیں کہ یہ جنگ عظیم دوم کے آغاز سے دو سال بعد کی بات ہے جب ہٹلر کا نازی جرمنی فتوحات پر فتوحات حاصل کر رہا تھا . پچھلے ہی برس ہٹلر نے پولینڈ پر قبضہ کیا تھا اور اس سے اگلے سال فرانس انکے ہاتھ میں آ گیا تھا .امریکا ابھی تک جنگ میں نہیں کودا تھا .تب جرمنی میں ہی مقیم فلسطینی سیاستدان ،یروشلم کے گرینڈ مفتی ،کٹر یہودی مخالف اور عرب قوم پرست امین الحسینی کی ہٹلر سے ملاقات ہوتی ہے .
یہ وہی مفتی ہیں جن کے حوالے سے عالمی زایونسٹ کانگریس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے ہٹلر سے کہا کہ “تم یہودیوں کو جلا کر “تلف” کر دو .نیتن یاہو مزید کہتے ہیں کہ ہٹلر صرف یہودیوں کو اپنے ملک سے بے دخل کر کے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا .لیکن امین الحسینی نے ہٹلر کو قائل کیا کہ یہ یہودی اگر زندہ بچ گئے تو یہاں فلسطین میں آ جایئں گے اس لئے انہیں زندہ جلا کر تلف کر دو ”
کالم نگار لکھتے ہیں کہ نیتن یاہو کے اس بیان کا مقصد اپنے اس موقف کا اعادہ ہے کہ ” اسرایئل اور فلسطین کے اس پر تشدد تنازعے کی اصل بنیاد اڑتالیس سال سے جاری مغربی کنارے پر یہودی قبضے نہیں ،فلسطینیوں کی جگہ پر یہودی آباد کاری نہیں ،اور نہ ہی غزہ میں خوراک اور تجارت کی ممانعت ہے بلکہ اسکی واحد وجہ یہودیوں سے عربوں کی ازلی نفرت ہے “.
لیکن دنیا بھر میں نیتن یاہو کے اس بیان کو اکثریت نے رد کر دیا .جسٹن مویئر لکھتے ہیں کہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے بھی اس دعوے کی نفی کی .انکا کہنا ہے کہ نازی ہی اس غیر انسانی فعل یعنی ہہولوکاسٹ کے ذمہ دار تھے .اسرایئل کی لیفٹ ونگ پارٹی میرٹز کی زهوا گولان نے بھی اپنے ملک کے وزیر اعظم کی بات کو جھٹلایا .گولان نے کہا کہ نیتن یاہو یوکرین میں تینتیس ہزار یہودیوں کی لاشوں کا کیا جواز دیں گے جو اس ملاقات سے دو ماہ قبل موت کے گھاٹ اتار دی گئیں ؟
تو اگر امین الحسینی ہٹلر کو کنسنٹریشن کیمپس بنوانے پر آمادہ نہیں کر رہے تھے تو کیا کر رہے تھے ؟ کالم نگار کے خیال میں انکی نوے منٹ کی ملاقات کا مقصد صرف اور صرف ہٹلر کو اپنی سپورٹ پر قائل کرنا تھا کیونکہ امین الحسینی عرب نمائندے کے طور پر ہٹلر کو عربوں کی سپورٹ کا واضح اعلان کروانا چاہتے تھے .لیکن تاریخی شواہد اس بات کی نفی کرتے ہیں .کیونکہ کالم نگار کے مطابق جرمنی کی اس زمانے کی فارن پالیسی ڈاکومنٹ کے والیوم تیرہ میں اس ملاقات کا احوال لکھا ہے جس میں ہٹلر کی جانب سے عربوں کی واضح حمایت کا کوئی اعلان نہیں ہے .اس بات کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہودیوں کا اور ہولوکاسٹ کا موجود صرف اور صرف ہٹلر ہی ہے ..http://www.washingtonpost.com/news/morning-mix/wp/2015/10/22/the-murky-story-behind-netanyahus-claim-of-a-palestinian-role-in-the-holocaust/
تجزیہ
کالم نگار اس پورے کالم میں ایک مخمصے میں نظر آتے ہیں .ایک طرف تو ہٹلر اور نازی ازم سے جس طرح کی نفرت مغرب میں پائی جاتی ہے اسکو سامنے رکھا جائے تو ہٹلر کی کسی اچھی بات کی حمایت بھی اس معاشرے میں ممکن نہیں لگتی .دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ اور دیگر بڑے بڑے اخبار اور جرائد کے بارے میں عمومی تاثر ہے جو کہ کافی حد تک درست ہے کہ یہودیوں اور اسرائیل کے خلاف لکھنا بھی بے حد مشکل ہے .اب کالم نگار جائیں تو جائیں کہاں ؟ایک جانب فلسطینیوں کی نہ دانستہ حمایت کرنی پڑ سکتی تھی دوسری جانب ہٹلر کو ریلیف مل جانے کا امکان تھا .کالم نگار کی پوری کوشش رہی کہ وہ دوسروں کے کندھوں کا سہارا لے کر بات کریں اور اپنی گردن بچا لیں اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں .
لیکن کیونکہ اس وقت عالمی میڈیا پر فلسطینیوں کی حمایت کا غلبہ ہو چکا ہے یا کم سے کم اب اسرائیل کو پہلے والی کھلی چھوٹ نہیں مل سکتی ،اسکی بنیادی وجہ سوشل میڈیا ہے .لوگ اپنی آنکھوں سے اسرائیلیوں کو مظالم کرتے دیکھ رہے ہیں .خود یہودیوں کی نئی نسل اسرایئل کے ان اقدامات کی مخالفت کر رہی ہے .یہاں بھی کالم نگار نے ہولو کاسٹ پر امین الحسینی کو تقریباً بے گناہ قرار دیتے ہوے تمام تر نزلہ ہٹلر پر گرا دیا ہے .اس دوران جسٹن موئیر کا انداز اتنا محتاط رہا ہے کہ انہوں نے غلطی سے بھی نیتن یاہو پر کوئی تنقیدی جملہ نہیں کہا .
میرے خیال میں امین الحسینی کی بات کو با لکل رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم کی اس بات کو مکمل طور پر اگنور نہیں کیا جا سکتا .یہ تو ممکن ہے کہ امین الحسینی نے ہٹلر سے ایسا کچھ نہ کہا ہو مگر یہ بات تو سامنے کی ہے کہ مسلمانوں میں اور خاص کر اس زمانے کے عربوں میں یہودیوں سے بے تحاشا نفرت پائی جاتی تھی .لیکن اصل مقصد جو نیتن یاہو اس دعوے سے حاصل کرنا چاھتے ہیں وہ مکمل دھوکہ فراڈ اور جھوٹ ہے .اس دعوے کا رخ وہ یہودی نفرت کی طرف موڑ کر فلسطین پر جاری اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنا چاھتے ہیں .
دوسری جانب ہٹلر کے ہولو کاسٹ مظالم کو جس طرح سے مبالغہ آمیز طریقے سے نمایاں کیا جاتا ہے وہ بد ذات خود بیسویں صدی کے چند بڑے ترین جھوٹوں میں سے ایک ہے .ہٹلر نے پانچ سات سال میں جرمنی کو سپر پاور بنا دیا تھا .جنگ عظیم اول کے بعد جو قوم نا کارہ ہو رہی تھی ہٹلر نے اس قوم کو سالوں میں ہر حوالے سے کھڑا کر دیا تھا .یہ کارنامے انکے جنگی جنون اور یہودیوں پر مظالم کے پراپیگینڈے کی وجہ سے دب جاتے ہیں .میں ہٹلر کو کلین چٹ نہیں دے رہا مگر ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ہٹلر نے ہر گز نہیں مارا .بلکہ کئی غیر جانبدار ادارے تاریخ دان اب آہستہ آہستہ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اس وقت تو یہودیوں کی اتنی آبادی پورے یورپ میں نہ تھی .
میرا خیال ہے وہ وقت دور نہیں جب اسرائیل کے مظالم کو دنیا میں کوئی سپورٹ نہیں کرے گا اور ہٹلر کے بارے میں جھوٹے دعووں کا پول بھی کھل جائے گا .
کوٹ ایبل
“ہم دونوں کے مشترکہ مفاد میں ہے کہ ابھی کچھ ماہ تک جرمنی عرب تنازعے میں مداخلت نہ کرے ” ہٹلر
“ہولو کاسٹ کا مصنف صرف ہٹلر ہے ”
سوال
کیا واقعی امین الحسینی نے ہٹلر کو یہودیوں کو تلف کرنے کا مشورہ دیا ہو گا ؟* کیا ہٹلر نے واقعی ہی ساٹھ لاکھ یہودیوں کوا مروایا تھا؟ * کیا نیتن یاہو اس بیان سے یہودیوں کے لئے ہمدردی کے جذبات حاصل کرنا چاہتے تھے ؟
ریٹنگ
ایک اوسط درجے کا کالم اسکو پانچ نمبر ہی دوں گا

.

3 thoughts on “تجزیہ ثاقب ملک : کیا فلیسطین کے گرینڈ مفتی نے ہٹلر کو ہولوکاسٹ پر آمادہ کیا ؟ واشنگٹن پوسٹ آرٹیکل

Leave a comment