میں آپ کو جاوید چوہدری کی طرح ایک کہانی سناتا ہوں .ذیشان اعوان

مجھے کرپشن قبول ہے، قبول ہے اور قبول ہے .کریشن کے معاملے میں دوسروں کو نامزد کرنا، اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں اتنا کرپٹ ہے بہت آسان اور مشہور کام ہے اس فہرست میں عوام کا ایک طبقہ سیاستدانوں کے نام گنوائے گا، ایک فوج کے جرنیلوں کا ،،ججوں کا ،،صحافیوں کا، اسی طرح وکلاء اور ڈاکٹرز بھی ہوں گے جبکہ بیووکرویٹ، علماء وغیرہ کے بارے میں تاثر بھی یہی دیں گے کہ ان کا تو پیٹ اور سر دونوں ہی کرپشن میں لٹھترے ہیں۔ ان سمیت دیگر شعبوں کے کرپٹ ترین افراد کے نام آپ کے زہن میں آنے سے ذرا پہلے میں آپ کو توجہ دوسری طرف متوجہ کرانا چاہوں گا یعنی اپنی اور ہماری طرف یعنی عوام کی طرف۔۔ ہم ہر روز کرپشن کو کوستے ہیں، ہر جگہ اس کے خلاف بحث میں حصہ لیتے ہیں، اچھی بات ہے برے کو برا کہنا چاہیے مگر زرا ٹھہریں یہ سب ادھر ہیں آپ ان پر بندوق چند لمحوں بعد فٹ کر دینا، اب میں آپ کو جاوید چوہدری صاحب کی طرح ایک کہانی سناتا ہوں مگر یہ کہانی کسی بادشاہ کی نہیں ہے بلکہ عوام کی ہے۔


آج ایک گاڑی میں سفر کیا، اس میں سواریوں کے بیٹھنے کیلئے کل دس نشستیں تھیں ، گوکہ مجھے لگتا ہے جب یہ اگر اسی طرح ڈایزئن ہوئی تو تب گرمیاں تھیں کیونکہ سردیوں میں تو دو آدمیوں کے ساتھ تیسری سیٹ ان کی جرسیوں، جیکٹوں اور چادروں میں ہی کہیں کھو جاتی ہے خیر میں واپس آتا ہوں سفر پر تو یہ جب شروع ہوا تو ایک طرف خواتین اور ایک طرف مرد بیٹھے تھے، زرا رکیں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے پوچھ لیں جو دو مردوں کو تو موٹر سائیکل پر بیٹھنے کیلئے بیج میں تکیہ رکھ کے سفر کا مشورہ دیتے ہیں وہ اس سواری کے بارے میں کیا تجویز کریں گے جس میں مرد کےگھنٹے اور نظریں عورت پر ہوتی ہیں اوربالکل ایسے یقینا خواتین بھی محسوس کرتی ہوں گی چونکہ مجھے خوش قسمتی یا بدقسمتی سے خاتون رہنے کا تجربہ نہیں ہے اس لیے ان کے حوالے سے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، ہاں مرد ہونے کے ناطے جب نظریں اٹھاو تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نشست پر الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات جمع کرانے کے امیدوار ہوں مگر چھوڑیں سیاستدان تو ہیں ہی۔۔۔ ہم آج کے سفر کی طرف واپس آتے ہیں۔


سامنے والی قطار میں ایک خاتون اور ان کے ساتھ ایک سات یا آٹھ سال کی بیٹی اور زیادہ نہیں تو بیس کلو کا سامان کا تھیلا تھا۔ان خاتون، بیٹی اورشاپر کے ساتھ ایک خاتون بیٹھیں تھیں جن کے چار بچے ساتھ تھے، ایک بیٹی جو دس، گیارہ سال کی ہوگی لیکن صحت تھوڑی پہلوان سی تھی، اس نے اپنی گود میں ایک بچی کو اٹھا رکھا تھا جو میرے اندازے کے مطابق چار سال کی ہوگی مگر بچی ماشاء اللہ بہت زہین اور ہنس مکھ دکھائی دے رہی تھی، ساتھ وہ خاتون خود تشریف رکھتِیں تھیں ان کے گھنٹے پر نفیس سا ہینڈ بیگ پڑا تھا جبکہ دوسرے پر ایک بچی، مجھے چونکہ عزت تھوڑی سے عزیز تھی اس لیے میں اس بچی کی عمر کا اندازہ صیح نہیں لگا پایا اور ان کے دائیں طرف ایک بیٹا جو جسم میں تو پندرہ سال کا مگر عمر میں چھ سات کا لگ رہا تھا۔ ماشاء اللہ سے ان دونوں خواتین نے دوپٹے کو سکارف بنا کر نہ صرف کود لپٹا ہوا تھا بلکہ ان کی چھوٹی چھوٹی بیٹیوں نے بھی ایسا ہی کیا ہوا تھا جس کے باعث وہ بہت معصوم اور اچھی لگ رہی تھیں۔ جس خاتون کے پاس ایک بیٹی اور ایک شاپر تھا انہوں نے اعلان یہ کیا کہ وہ صرف اپنی سیٹ کا کرایہ دیں گی، ان کی بیٹی گود میں اور شاپر پاوں میں ہوگا مگر چونکہ ان کے اپنے گھنٹے سامنے بیٹھے مرد کی گود کے بالکل قریب تھے اس لیے ان کی بیٹی سیٹ پر بیٹھی اور جب شاپر کیلئے بھی جگہ نہ بچی تو اسے بھی سیٹ پر رکھ دیا، دوسری خاتون کا بھی ذرا ذکر خیر ہوجائے وہ راستے میں دعائیں پڑھتی ہوئی آ رہی تھیں، جب سواں پل کے پاس پہنچے تو ایک سال قبل سڑک کی دوسری طرف سے اس طرف منتقل ہونے والے پیر صاحب کی زیارت پر بچوں کو دعا مانگنے کی بھی ہدایت کی اور جب ازان کی آواز تو بچوں کو خاموش ہونے کی بھی تاکید کی۔ راستے میں خالی سیٹ کا جب بزرگ کو کہا گیا تو وہ گاڑی میں آئے اور انہیں بچے کے ساتھ بیٹھنے کیلئے کہا گیا جہاں جگہ تھی ہی نہیں یا کم ازکم مجھے نہیں نظر آئی۔ انہوں نے بیٹھنے کی ناکام کوشش کی اور ہوا میں ملعق رہے، چھت اتنا اونچا ہوتا نہیں کہ وہ کھڑے ہوسکتے اس لیے جیسے ہی گاڑی چلی ان کا سر چھت سے ٹکرایا اور اس کے بعد وہ آرام سے گاڑی سے اتر گئے۔اس پر خواتین نے ہم مردوں کی طرف ایسا غرور سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں دیکھا ہم نہ کہتیں تھیں کہ مرد کو تکلیف برداشت کرنی آتی ہی نہیں یہ کام تو بس عورت ہی جانے۔ کہانی میں سب سے دلچسپ موڑ تب آیا جب سڑک پر موڑ آیا۔۔ یہاں شکر ہے سنگل نہیں آیا ورنہ آپ لوگوں نے سمجھنا تھا کوئی اپنا دل اوتھے چھوڑ آیا۔ خیر موڑ پر گاڑی رکی اور ڈرائیور صاحب کرایہ لینے کیلئے آگئے، جیسے ہی سواریوں نے کرایہ دینا شروع کیا، چونکہ ہم سب بہت محب الوطن پاکستانی ہیں اس لیے قائداعظم کے تنظیم والے لفظ کو بالکل بھی زحمت نہیں دیتے۔میرے سمیت سب نے ایک ساتھ کرایہ آگے بڑھا دیا تو اس سے ڈرائیوراندازہ نہ لگا سکا کہ کون دے چکا ہے اور کس نے ابھی نہیں دیا، کچھ کو اس نے لوگوں کے کہنے کے مطابق بقایا واپس کیا تب اسے احساس ہوا کرایہ تو کم ہے، پھر اس نے گاڑی میں نظر دوڑائی کہ شاہد اندازہ ہو خیر خواتین نے تو عین اسلامی اصول کے مطابق اس غیر مرد کی طرف دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، میرے سمیت سب مردوں نے البتہ دیکھا، وہ مجھے بھلا مانس آدمی لگا ورنہ وہ اپنی برداری کی طرح منہ اور ہاتھ سے حملہ آور ہو کر بھی مانگ سکتا تھا مگر اس نے صرف نظریں گاڑیں، سب مردوں میں اتفاق سے میں سب سے کم عمر تھا اور اس نے یہی سمجھا کہ چلو مرغا ہاتھ لگ گیا، میں نے ایک دفعہ منمماتی آواز میں کہا کہ بھائی میں نے دیدیا ہے مگر میرے یہ لفظ پتھر دل پر اس طرح اثر نہ دکھا سکے جیسے خواتین کے دکھاتے ہیں، اس نےمجھے پھر دیکھا تو مجھے تھوڑی سی بے عزتی محسوس ہوئی اور ماتھے پر ہلکا سا پسنیہ بھی آیا، پرس چونکہ پہلے ہی میرے ہاتھ میں تھا اس لیے میں نے فورا ہی اس سے بیس روپے نکالے اور اسے پکاڑنے کیلئے اپنا ہاتھ آگے کیا، چونکہ پہلی دفعہ کافی بازواس کی طرف بڑھے تھے تب وہ میرا بازو نہیں دیکھ پایا لیکن اس بار اس نے دیکھ لیا اور میرے سے پیسے لینے سے انکار کردیا، معذرت کی اور ایک جملہ کہا وہ میں آپ کو جاوید چوہدری صاحب ہی کی طرح اخیر میں بتاؤں گا .
۔ پھر ہم مردوں نے مل کر خواتین کو دیکھا کہ آپ لوگ اپنی جگہ سے ہلے ہی نہیں تو کیا آپ لوگوں کا کرایہ ادا کرنے کیلئے اللہ نے فرشتوں کی مدد اتار دی ہے؟ تب ایک خاتون جن کے چار بچے تھے اور جن کے پاس تین مکمل اور تھوڑی سی چوتھی سیٹ بھی تھی انہوں نے اپنے ہینڈ بیگ کی زپ کھولی اور اس میں سے سو روپیہ نکالا، ڈروائیور چونکہ شریف یا نیا نیا اس میدان میں اترا تھا اس لیے اس نے پو چھا باجی آپ کی کتنی سیٹیں ہیں، انہوں نے فورا جواب دیا”دو” ان کے ساتھ بیٹھے بیٹے نے زبان اور ہم مردوں نے نظروں سے احتجاج کیا تو وہ تیزی سے کہنے لگیں راستے میں وہ انکل بھی تو بیٹھے تھے نا۔۔ یہ جملہ جیسے ہی ختم ہوا دوسری خاتون کی بیٹی نے سرگوشی کی امی آپ نے کرایہ نہیں دیا تو وہ خاتون کہنے لگیں کہ ہمیں جب سیٹ ہی ٹھیک نہیں ملی تو کرایہ کس بات کا دیں؟ سفر ختم ہوا مگر سوال اور حیرانی نہیں کہ اگر کچھ غلط ڈرائیور نے کیا ہوتا تو تمام شہری زمہ دار بنتے اور واڑنز کو جا کر شکایت لگاتے جو جرمانہ تو کرتا ہی ہے ساتھ ہی شاہد گالی یا تھپڑ بھی جڑدیتا۔۔ جن میں آج جمتعہ المبارک ہونے کی وجہ سے چونکہ ٹریفک کم تھی اس لیے پنجاب پولیس اور واڑںز والے عوام کو خوب قانون یاد دلا رہ تھے۔۔چلیں یہ تو روز کا کام ہے نا؟ اس ناانصافی پر ان خواتین کو کون اور کیسے روکے گا؟کوئی اخلاقی، سماجی یا ملکی قانون؟؟؟ نہیں نا۔۔ پھر ہمیں نصیب ہونے والے ہر شعبے کے رہنما ہم جیسے کیوں نہ ہوں؟ ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی عادت نہ ہے اور نہ ہی کسی نے ڈالی اس لیے ہمیں دوسرے جانب اٹھنے والی ایک انگلی تو نظر آتی ہے پر اپنے طرف آنے والی دو نہیں۔۔ اور یہاں میں آپ کے صبر کا امتحان ختم کرتے ہوئے وہ جملہ بتاتا ہوں جس کیلئے آپ کو یہاں تک گھسیٹ کر لیا ہوں، اس ان پڑھ، جاہل گنوار ڈرائیور نے میرے بازو سے شرٹ کا اندازہ لگایا اور معذرت کی اور کہا “بھائی یہ ساری گارڑی بھی اب کہہ دے کہ آپ نے کرایہ نہیں دیا تو میں پھر بھی یقین نہیں کروں گا کیونکہ مجھے پتہ ہے پینٹ شرٹ والے لوگ ہمارے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے”۔ یقین کریں اس کی یہ بات سن کر مجھے دکھ کا ایک زوردار جھٹکا لگا کہ میرے ملک میں تو اکثریت شلوار قیمض پہننے والوں کی ہے تو پھر اس تنگ وتاریک، انتہائی غیرآرام دہ سوزوکی میں سفر کرنے کیا یہود ونصاری آتے ہیں؟؟؟ اگریہ سچ ہے تو پھر آئِے یہ قانون بنانے کیلئے آواز اٹھائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبول قبول ہے ہمیں تو صرف کرپشن ہی قبول ہے۔

Leave a comment