افسانہ نگاری کا مقابلہ :افسانہ “آخری سانسیں” تحریر نورین تبسم

“میں نے تم سے ملنا ہے۔۔۔ “ایک مسلسل خواہش
کل رات وہ “آئی سی یو” میں تھی۔ خاموش چُُپ چاپ۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا مہلت ختم ہو رہی تھی-وصال ِیار کا لمحہ آن پہنچا تھا۔ لیکن انتظار تھا کہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ قدموں کی چاپ کی منتظرآنکھیں شاید ہمیشہ کے لیے بند ہونے والی تھیں۔ قانون ِقدرت نے ہمیشہ اُس کا ساتھ دیا کہ کوئی اس کی خاطر جی گیا توکوئی مر گیا۔اب اُس کی باری تھی قانون ِقدرت کا حصہ بننے کے لیے۔۔۔ وہ کسی کی خواہش کی سولی پر چڑھنے کو تیار تھی ۔
وہ دیکھ رہی تھی کہ ابھی ‘اُُس’کے ہاتھ ہوا میں معلق ہیں وہ ابھی جھولی پھیلا رہا ہےکہ بھیک مل جائے۔ وہ ناسمجھ تھا کہ بھیک مل بھی گئی تو کیا اُس کی جھولی اس قابل ہو گی کہ اُس میں اُس کی خواہش سماجائے؟ پھر اگر جھولی بھر بھی گئی تو رب سے اور کیا مانگے گا ؟وہ تو ہمیشہ سے ‘مراد’ کے حالت ِسفر میں تھا۔ مراد مل گئی تو سفر کیسے طے ہو گا ؟منزل تو دور ہے سفر کیونکر مکمل ہو گا ؟ وہ ‘ان جان’ اپنا آپ مکمل کرنے کی چاہ میں تھا۔ نہیں جانتا تھا کہ اپنا آپ مکمل کرنے کے لیے۔۔۔ اپنا بُت تراشنے کے لیےمٹی درکار ہوتی ہے۔اورمٹی بےمول نہیں ہوتی۔۔۔جابجا بکھری نہیں ملتی۔۔ کسی اورکا بُت توڑنا پڑتا ہے۔۔۔ چاہے وہ اپنی خواہشوں کا ہو یا کسی کی ذات کا یا پھرکسی کے ‘وجود’ کا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ صبح کی تلاش میں ایک لمبی کالی رات گزارنا پڑتی ہے لیکن اگر یہ رات تنہا کسی ویران بیابان ” ڈی زیرو” میں آجائے تو کبھی نہیں کٹتی انسان کٹ جاتا ہے۔اور یہی رات اگر کسی ہمدم وہمنشیں کی قربت میں گزرے تو پھر یوں ہوتا ہے کہ صبح نہیں ہوتی رات نہیں ہوتی صرف ذات ہوتی ہے۔ہرسُو جلوہ ہی جلوہ پھرکیا رات کیا دن۔
وہ جلوؤں کا منتظر تھا لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ وقت کا آئینہ جب اُسے اپنا چہرہ دکھائے گا تووہ کس طرح اپنے آپ کا سامنا کر پائے گا۔ وہ نادان تو آنکھیں بند کیے مزاریار پر دہائی دے رہا تھا اور کسی کی زندگی کا سورج لمحہ بہ لمحہ ڈوب رہا تھا۔
۔”وہ”جس نے ایسی راتیں بھی گزاریں کہ جب وہ کسی کی خواہش کی تکمیل تھی کسی کی جھولی کا پھل تھی کسی کی طلب کا جواز تھی کسی کے خیال کا وجود تھی (کسی کی محبت کی مجسم تصویر تھی) -اُس میں اس کی کوئی خواہش کوئی ارادہ نہ تھا وہ خالق ِکائنات کا فقط ایک مہرہ تھی ۔
یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا ہمارا رب کس کو کس طرح نوازتا ہے۔ کبھی ہم خاموشی سے چُُپ چاپ۔۔۔ بنا کسی سے مانگے۔۔۔ اپنے رب سے شکوہ کیے بنا۔۔۔ اپنی ‘چاہ’کے اسم ِاعظم کا ورد کیے جاتے ہیں۔ کبھی اپنے آپ سے بھی ان جان بن جاتے ہیں۔۔۔ اپنی خواہش کو کہیں اورتلاش کر کے۔۔۔ یا پھر وقت کی چادر میں ڈھانپ کرپرانے سامان کے ساتھ رکھ کر بھول جاتے ہیں۔پھرہوتا یوں ہےکہ وہ خواہش خون کی روانی میں شامل ہو جاتی ہے۔وقت جب اس میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو خواہش کوخود ہی باہر آکر روانی جاری رکھنے کی سعی کرنا ہوتی ہے۔ وہ الجھے دھاگے سلجھاتی ہے۔ ٹوٹے بندھن استوار کرتی ہے کہ وقت کم ہےسفر باقی ہے۔۔۔ اورسفر بھی وہ جس پراُن لوگوں کا حق ہےجو خاموش کھڑے تماشہ وقت دیکھ رہے ہیں۔ مرہم اپنا کام کرتا ہے اور لوٹ جاتا ہے۔۔۔ اس سے زیادہ اس کی اہلیت نہیں۔
ساری بات اسم ِاعظم کی ہے سچی طلب کی ہے جو کبھی رد نہیں ہوتی۔یہ کبھی تو خود کو فنا کرکے ملتی ہے۔۔۔کبھی سب بھلا کر۔۔۔ساری خواہشیں اللہ کے سامنے نذر کرکے ۔۔۔رب کی خواہش کی بھیک مانگ کر
یاد رکھو ! اللہ سے جو مانگنا ہے مانگ لو -اللہ اپنے بندے کو کبھی خالی نہیں لوٹاتا -یہ ہم ہی ہیں جو”خواہشات”توبڑے ذوق وشوق سے پالتے ہیں۔۔۔ اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔۔۔اُن کو ایک مقدس کتاب کی طرح دل کے معبد میں اُونچے مقام پر رکھتے ہیں۔۔۔ لیکن اُن کا پھل کھانے کا ظرف نہیں رکھتے۔ اپنی خواہش کا پھل ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق نہیں ہوتا۔
وہ’ ڈی زیرو’ میں تھی “۔ وہ کسی کی خواہش کے حصار میں تھی – وہ راضی برضا تھی کہ اُس کا سفر کسی اور کے لیے تھا شانت تھی کہ مکمل ہو گئی رب کی خواہش کے سامنے جو اپنے بندوں کو نامراد نہیں لوٹاتا۔لیکن وہ اُداس تھی غیر مطمئن تھی اُس کی آنکھ سے نمی نہیں جا رہی تھی کہ کاش یہ وقت کبھی نہ آتا۔
وہ “وہ”چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی جو بند آنکھوں میں بھی اُس کے سامنے پوری طرح عیاں تھا۔۔۔ ایک ہارے ہوئے انسان کا چہرہ۔۔۔ جس کی خواہش اُس کی آنکھوں کے سامنے تھی ۔۔۔اور وہ اس وقت کو رو رہا تھا جب اُس نے یہ خواہش کی وہ خواہش جوحاصل ِزندگی تھی۔ متاع ِجاں جب ہاتھوں سےنکل جائے تو انسان باقی زندگی کیسے گزارے گا۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی کسی کے ساتھ نہیں مرتا۔ ہرایک اپنے وقت پر جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواہش کی حدّت اتنی بڑھ جائے کہ انسان کا اپنا وجود اس میں راکھ بن کر اُڑ جائے۔ تو “وصال ِیار تو پھر بھی نہ ہوا کہ بند آنکھوں کی کہانی بند آنکھوں نے سنی”۔
وہ مر رہی تھی لیکن اُس کا ڈر نہیں مر رہا تھا۔ اُس کا خوف جس نے زندگی بھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑا اب وہ اُس کی روح کا دامن تھامے ہوا تھا۔وہ رُکنا چاہتی تھی۔۔۔ کسی کی آنکھ میں زندگی کی روشنی بن کر زندہ رہنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ کسی کو مرنے سے پہلے قتل کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔وہ اپنے ڈر خوف یہیں چھوڑ جانا چاہتی تھی۔۔۔خالی ہاتھ آئی تھی اورخالی ہاتھ جانا چاہتی تھی۔
اپنے رب سے ہمیشہ اس نے رب کی خواہش مانگی اب بھی اگر رب کی یہی رضا تھی تو وہ اس پر بھی راضی تھی ۔۔۔بس ایک کسک تھی کہ کاش وہ اس وقت سے پہلے وقت کو لگام ڈال دیتی۔۔۔ اگر اُس کو وقت کے اس فیصلے کا ادراک تھا تو اُس نے وقت کی چاپ اُن قدموں کو کیوں نہ دی جو مزارِیار کی جانب رواں دواں تھے۔۔۔
۔”وقت نےاُن کی تقدیر میں صرف مزار پر فاتحہ پڑھنا ہی لکھا تھا.

 

12 thoughts on “افسانہ نگاری کا مقابلہ :افسانہ “آخری سانسیں” تحریر نورین تبسم

    • احساس کی نزاکت محسوس کرنے کا شکریہ۔ لیکن محض خوبصورتی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک بامعنی نہ ہو۔اور معنی ہر ایک پر اس کے ظرف کے مطابق اترتے ہیں۔

      Like

  1. افسوس کہ کہانی ، تخلیقی جملوں کو بلا سبب ‘ گھسانے ‘ سے کہیں گُم ہو کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔ عمدہ اسلوب کا تقاضہ تو یہ ہوتا ہے کہ تخلیقی جملے کہانی کو سپورٹ کریں اور یوں کہانی بھی خوبصورتی سے آگے بڑھتی چلی جائے اور تخلیقیت کا حسن بھی نظر آئے۔ معنی اپنے ترسیل نہ کر پائے کیونکہ کہانی کہیں ہاتھ سے چھٹ گئی تو جملے ، صرف جملے ہی رہ گئے۔
    رائٹر کا خود افسانے کے درمیان آکے بولنا بھی بیانیہ میں تسلسل اور روانی میں روکاوٹ کا باعث بنا ۔۔۔۔۔
    “یاد رکھو ! اللہ سے جو مانگنا ہے مانگ لو -اللہ اپنے بندے کو کبھی خالی نہیں لوٹاتا -یہ ہم ہی ہیں جو”خواہشات”توبڑے ذوق وشوق سے پالتے ہیں۔۔۔ اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔۔۔اُن کو ایک مقدس کتاب کی طرح دل کے معبد میں اُونچے مقام پر رکھتے ہیں۔۔۔ لیکن اُن کا پھل کھانے کا ظرف نہیں رکھتے۔ اپنی خواہش کا پھل ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق نہیں ہوتا۔” ۔۔۔۔۔۔
    یاد رکھو ۔۔۔۔۔ جیسے لفظ سے جملے کی ابتدااور ایک طویل پندو نصائح نے افسانے کے حسن کو تباہ کردیا ۔۔۔۔۔۔۔ افسانے میں یہ خطیبانہ انداز ایک بڑا نقص سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔ یہ قولِ زریں تو کہلا سکتا ہے مگر افسانے کے درمیان محض ایک ‘ سپاٹ ‘ جملہ ۔۔۔۔۔ یا تو اشفاق احمد صاحب کی طرح کوئی ایسا کردار تخلیق کیا جائے جو ایسی پندو نصائح گراں نہ گذرنے دے۔
    زبان کی بہت شروع میں ہی غلطی ۔۔۔۔ ” میں نے تم سے ملنا ہے ۔۔ ”
    مجھے تم سے ملنا ہے ۔ درست ہوگا۔
    ایسی ہی کئ غلطیاں جنہوں نے افسانے کا حسن برباد کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ احساسات اگر اپنے معنی ترسیل کر پاتے اور کہانی سے مربوط نظر آتے تو عمدہ افسانہ ہو سکتا تھا

    Liked by 1 person

    • فکر انگیز تجزیہ ہے۔
      میں افسانے پر تو کوئی تبصرہ بایں ہیچمدانی و کم مائیگی نہیں کر سکتا مگر میرا خیال ہے مصنفہ کو سیدھی سادی تائید یا تردید سے بہت زیادہ توجہ اس قسم کی آرا پر دنی چاہیے جو انھیں فن کے کچھ نئے زاویوں سے روشناس کروا سکیں۔

      Like

Leave a reply to Jamaati Cancel reply