افسانہ نگاری کے مقابلے کا آخری افسانہ : افسانہ ” پچھتاوا” تحریر، فدا

ماں آج میرا سکول جانے کا من نہیں کر رہا۔
کیون بیٹا نہ آپ بیمار ہیں ،نہ آپ کو کوئی اور مسلئہ ہے پھر سکول جانے کا من کیوں نہیں کر رہا؟
بس ماں ایسے ہی میرا دل عجیب سا ہو رہا ہے۔
ارے میری جان آپ سکول جائیں گے دوستوں میں کھیلیں گے تو جی بہل جائے گا۔ ایسے گھر بیٹھے رہنے سے دل مزید اداس ہوگا۔
اوکے ماں مگر پرامس کریں سکول سے واپس آنے پر آپ مجھے آئس کریم کھلانے لے جائیں گی۔
اوکے پرامس۔
تھینک یو مام آئی لو یو۔
کہتے اس کے ننھے منے گال خوشی سے چمک اٹھے
خوش کیوں نا ہوتا آخر اتنے دنوں بعد مما نے اسے آئس کریم کھلانے کا وعدہ جو کیا تھا۔
پانچ سالہ عاشر اپنے ماں باپ کا لاڈلا اور دو بہنوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔
پڑھائی میں ہمیشہ اے گریڈ لاتا، سکول سے کبھی ناغہ نہیں کرتا تھا. ان فیکٹ اسے سکول سے عشق تھا۔
مگر آج نہ معلوم اس کا من کیوں نہیں کر رہا تھا، ساجدہ بیگم نے اسے لاڈ سے سکول کےلیے رخصت تو کر دیا مگر وہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہی کہ عاشر نے آج چھٹی کی بات کیوں کی۔
یہ صبح ساڑھےدس بجے کا ٹائم تھا ساجدہ بیگم جیو نیوز پر کل کا کوئی ریپیٹ شو دیکھ رہی تھی۔
اچانک سے ٹی وی سکرین پہ موٹے موٹے الفاظ میں لکھا آیا۔ ۔
“بریکنگ نیوز”
پشاور آرمی پبلک سکول پہ دہشتگردوں کا حملہ، متعدد سکول کے بچے شہید، اور زخمی۔
اطلاعات کے مطابق پشاور آرمی پبلک سکول پہ پانچ سے دس دھشت گرودں نے دھاوا بول دیا، اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
اس سے زیادہ ساجدہ بیگم کے اندر سننے کی ہمت نہیں رہی۔ وہ دیوانہ وار ننگے سر اور ننگے پیر عبدل عبدل، جلدی گاڑی نکالو، پکارتی باہر کی طرح دوڑ پڑی۔
عبدل نے بیگم صاحبہ کو کبھی اس حالت میں نئیں دیکھی تھی ، وہ حیران و پریشان رہ گیا۔ “میرا منہ کیا تک رہی ہو جلدی گاڑی نکالو اور مجھے عاشر کے سکول لے چلو”، بیگم ساجدہ چلا کے بولی
عبدل نے چار و ناچار حکم کہ تعمیل کی۔
سکول سے کافی دور آرمی کے جوان کھڑے تھے، انہوں نے گاڑی روکی۔
“خدا کےلیے مجھے جانے دو، مجھے میرے عاشر کے پاس جانا ہے” بیگم ساجدہ نے روتے روتے التجا کی۔
میڈم آگے خطرہ ہے، دہشت گرد ابھی تک سکول کے اندر ہیں اور بچوں کو چن چن کرشہید کر رہے ہیں۔
اس سے زیادہ ساجدہ بیگم سن نہیں سکی اور گاڑی کی سیٹ پر ہی بے غش کھا کرگر پڑی۔
بارہ گھنٹے کی مسلسل بے ہوشی کے بعد جب ہوش آیا تو ان کے منہ سے پہلا جو لفظ نکلا وہ “عاشر” تھا،
ان کے شوہر میجر احمد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ انہیں کیسے بتائے کہ اب تمہارا عاشر کبھی تمہاری پکار پر لوٹ کر نہیں آئے گا، اسے نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا، اسے کچھ بھیڑیوں نے نوچ ڈالا تھا، اسے کچھ کتوں نے بھنبھور ڈالا تھا.
میجر احمد کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھتی بیگم ساجدہ پوچھنے لگی عاشر کہاں ہے احمد،، عاشر کو بلاو،
مگر میجر احمد کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکل سکا، ان کا مظبوط دل بھی آج پسیج گیا تھا، ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے نکل پڑے،
بیگم ساجدہ کو جواب مل گیا، اس کی آنکھیں پتھرا گئیں، اسے صبح کا منظر یاد آیا، ۔
وہ سوچنے لگی کاش میں آج عاشر کی مان لیتی،، کاش میں اسے زبردستی سکول نہیں بھیجتی، اس معصوم کے لاشعور نے شاید اسے آنے والے واقعے سے آگاہ کر دیا تھا،
مگر اب پچھتاوائے کے علاوہ کچھ بچا نہیں تھا،
وہ ایک بار پھر کومے میں چلی گئی اور میجر احمد کے آنسوؤں کی رفتار کچھ اور بڑھ گئی.

.

One thought on “افسانہ نگاری کے مقابلے کا آخری افسانہ : افسانہ ” پچھتاوا” تحریر، فدا

  1. یہ ایک ایسا حالیہ واقعہ سے جڑا ہے (پشاور آرمی سکول) کہ اگر اس میں احساسات اور جذبات کو بہترین ٹریٹمنٹ سے برتا جاتا تو ایک بیسٹ افسانہ بن جاتا ورنہ پھر اخباری خبر ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ اس افسانے کے ساتھ ہوا اخباری خبر ۔۔۔۔۔ اور کچھ بھی تو نہیں۔
    تخلیق کاروں خاص طور پہ نئے لکھنے والوں سے گذارش ہے کہ ایسے واقعات سے تب تک گریز کیا جائے جب تک ٹریٹمنٹ پہ گرفت نہیں آجاتی ۔۔۔۔۔ ورنہ پھر ٹھیک ہے اخباری خبریں لکھتے رہیے ۔۔۔۔۔
    عمدہ تخیل اور موضوعات کا تنوع اور چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے کسی افسانے کی کامیابی میں اور ٹریٹمنٹ بھی ۔۔۔۔۔
    پنچ لائن ہی علامتی دے دیتے کومے میں ڈالنا عجیب سا لگا۔

    Liked by 1 person

Leave a comment